urdu kahaniyan, stories in urdu, horror stories, in urdu horror stories, horror stories in urdu, horror story, jin baba, bhoot ki kahani, bhooton ki kahaniyan,
urdu kahani, beautiful stories in urdu,
قسط 6: خوفناک مہمان
شام کا وقت تھا۔ سہیل اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں اکیلا بیٹھا کافی پی رہا تھا۔ باہر موسم بارش کا تھا، ہوا تیز چل رہی تھی اور بجلی کبھی کبھار چمک اٹھتی۔ ایسے موسم میں سہیل کو اکثر پرانی یادیں آتی تھیں۔ اس کی بیوی اور بچے ایک رشتہ دار کے گھر گئے ہوئے تھے، اور گھر میں صرف وہی تھا۔
اچانک دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ سہیل نے حیرانی سے دروازے کی طرف دیکھا۔ اس وقت کون آ سکتا ہے؟ اس نے دروازہ کھول کر دیکھا تو سامنے ایک عجیب شخص کھڑا تھا۔ اس کا چہرہ کافی زرد تھا، آنکھوں کے نیچے گہری لکیریں اور کپڑوں پر مٹی لگی ہوئی تھی۔
"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ باہر بارش بہت تیز ہے،" اس شخص نے دبے لہجے میں کہا۔
سہیل کو عجیب سا لگا لیکن مہمان کو منع کرنا اس کی تہذیب کے خلاف تھا۔ اس نے اس شخص کو اندر بلایا اور صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ مہمان چپ چاپ بیٹھا رہا، لیکن اس کی آنکھیں ہر چیز کو گھورتی رہیں۔
"آپ کہاں سے آئے ہیں؟" سہیل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
"میں یہاں سے گزر رہا تھا۔ رات ہونے والی تھی اور مجھے پناہ چاہیے تھی،" مہمان نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔
سہیل نے مہمان کے لئے چائے بنائی اور اس کے سامنے رکھی۔ مہمان نے چائے اٹھائی، لیکن پینے کے بجائے کپ کو صرف دیکھتا رہا۔ اس کی حرکات اور خاموشی سہیل کو اور زیادہ عجیب لگ رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد مہمان اٹھ کر گھر کے اندر چلنے لگا۔ "رکیے! آپ کہیں جا رہے ہیں؟" سہیل نے پوچھا لیکن مہمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سیدھا ڈرائنگ روم کی ایک پرانی الماری کی طرف گیا اور ہاتھ سے الماری کے اندر کچھ ڈھونڈنے لگا۔
سہیل کو غصے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی گھبراہٹ بھی محسوس ہونے لگی۔ "یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ یہاں کچھ نہیں ہے!" اس نے تیز آواز میں کہا۔
لیکن مہمان نے الماری سے ایک پرانا فوٹو فریم نکالا۔ سہیل نے دیکھا تو اس کا رنگ اڑ گیا۔ وہ فریم اس کی ماں کا تھا جو کئی سال پہلے گزر چکی تھی۔ مہمان نے فریم کو گھور کر دیکھا اور مسکرایا۔ اس کی مسکان اتنی ڈراؤنی تھی کہ سہیل کا دل سینے میں دھڑکنے لگا۔
"یہ فریم تمہارے پاس کیسے آیا؟" مہمان نے دھیرے سے پوچھا۔
"یہ... میری ماں کا ہے،" سہیل نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
"میں تمہاری ماں کا پرانا دوست ہوں،" مہمان نے ایک عجیب سی آواز میں کہا۔ "تم سے ملنے آیا تھا۔ لیکن اب مجھے چلنا چاہیے۔"
اس کے بعد مہمان بغیر کچھ کہے دروازہ کھول کر باہر چل دیا۔ سہیل اس کے پیچھے بھاگ کر گیا لیکن جب تک وہ باہر پہنچا، مہمان غائب ہو چکا تھا۔
تیز بارش میں صرف ایک چیز زمین پر پڑی تھی—وہ فوٹو فریم، جو سہیل نے دیکھا تھا۔ جب اس نے فریم اٹھایا تو اس کے پچھلے حصے میں ایک پرانی چٹھی لگی ہوئی تھی۔ چٹھی میں لکھا تھا:
**"اگر کبھی اس فریم کا اصلی مالک تم سے ملنے آئے، تو سمجھ لینا کہ میں اپنے وعدے کے مطابق اسے بھیج چکی ہوں۔"**
سہیل نے چٹھی کو پڑھ کر اپنے ہاتھوں کا پسینہ محسوس کیا۔ اس کا دل اب تک تیز دھڑک رہا تھا۔ مہمان کون تھا؟ اس کا ماں سے کیا رشتہ تھا؟ یہ سوال اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔
اس رات سہیل کو نیند نہیں آئی۔ مہمان کی وہ ڈراؤنی مسکان اور چٹھی کا ہر لفظ اس کے ذہن میں تازہ تھا۔ وہ سوچتا رہا کہ کہیں یہ کوئی خواب تو نہیں تھا؟ لیکن زمین پر پڑا فریم اور چٹھی اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ سب حقیقت تھا۔
اگلی صبح سہیل نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ سے جا کر بات کرے گا کیونکہ اسے یاد تھا کہ اس کی خالہ اکثر اس کی ماں کے پرانے دوستوں کے بارے میں بات کیا کرتی تھیں۔ خالہ کے گھر پہنچ کر سہیل نے انہیں سب کچھ تفصیل سے سنایا۔
خالہ نے بات سن کر گہری سانس لی اور کہا، "سہیل، تمہاری ماں کا ایک پرانا دوست تھا، ندیم۔ وہ تمہاری ماں کے ساتھ پڑھتا تھا اور اس سے بہت گہری دوستی تھی۔ لیکن ندیم ایک حادثے میں کئی سال پہلے مر چکا تھا۔"
یہ سن کر سہیل کا دل دھک سے رہ گیا۔ "لیکن خالہ، وہ شخص زندہ تھا، وہ مجھ سے ملنے آیا تھا!" سہیل نے لرزتی آواز میں کہا۔
خالہ نے خاموشی سے ایک پرانی تصویر نکالی، جو ندیم کی تھی۔ سہیل نے تصویر کو دیکھا تو حیران رہ گیا، کیونکہ وہی چہرہ تھا جو پچھلی رات اس کے گھر آیا تھا۔
خالہ نے کہا، "ندیم تمہاری ماں سے ایک وعدہ کر کے گیا تھا کہ اگر کبھی وہ اس دنیا سے گیا تو اس کی کوئی نشانی تمہیں ضرور ملے گی۔ شاید وہ اپنا وعدہ پورا کرنے آیا تھا۔"
سہیل کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہے۔ کیا واقعی ندیم کی روح اس سے ملنے آئی تھی؟ یہ سوال ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن میں زندہ رہا۔
(ختم)
Comments
Post a Comment