horror stories,in urdu horror stories, horror stories in urdu, horror story,jin baba, bhoot ki kahani,bhooton ki kahaniyan,
urdu kahani,beautiful stories in urdu,
**عنوان: پراسرار مکان کا راز**
رات کے دو بج رہے تھے اور پورا شہر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ زبیر اپنے دوستوں، وقاص اور ندیم کے ساتھ شہر کے ایک مشہور پرانے مکان کے باہر کھڑا تھا۔ یہ مکان کئی سالوں سے خالی پڑا تھا اور مشہور تھا کہ یہاں عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ جو بھی یہاں رات گزارتا ہے، وہ یا تو واپس نہیں آتا یا پھر پاگل ہو جاتا ہے۔
وقاص نے کانپتی آواز میں کہا، "کیا تم لوگ واقعی اندر جانا چاہتے ہو؟ مجھے تو یہ جگہ دیکھ کر ہی خوف محسوس ہو رہا ہے۔" ندیم نے ہنستے ہوئے کہا، "ڈرپوک مت بنو، یہ سب صرف کہانیاں ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔" زبیر نے بھی ہنستے ہوئے کہا، "ہاں یار، آج پتہ چل جائے گا کہ ان کہانیوں میں کتنی سچائی ہے۔"
تینوں دوستوں نے ہمت کر کے مکان کا زنگ آلود دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر انتہائی خوفناک تھا۔ پرانے فرنیچر پر گرد کی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی، دیواروں پر عجیب و غریب نشانات تھے اور ہوا میں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔
زبیر نے ٹارچ کی روشنی آگے کرتے ہوئے کہا، "چلو آگے بڑھتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ یہاں کیا راز چھپا ہے۔" وہ تینوں آہستہ آہستہ مکان کے اندرونی حصے کی طرف بڑھنے لگے۔ اچانک، وقاص کو لگا کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔ وہ فوراً پیچھے مڑا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
وقاص نے گھبرا کر کہا، "مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہاں سے واپس جانا چاہیے۔" زبیر نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا، "یہ صرف تمہارا وہم ہے۔ آگے بڑھو، کچھ نہیں ہوگا۔" ندیم نے بھی وقاص کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، "تم واقعی بہت ڈرپوک ہو۔"
چلتے چلتے وہ ایک بڑے ہال میں پہنچے جہاں ایک پرانی میز کے اوپر ایک چراغ رکھا ہوا تھا۔ ندیم نے مذاق کرتے ہوئے چراغ کو اٹھایا اور کہا، "شاید یہ کوئی جادوئی چراغ ہو۔" لیکن جیسے ہی اس نے چراغ کو اٹھایا، ایک زوردار چیخ کی آواز سنائی دی اور چراغ خود بخود اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔
تینوں خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کے قریب ہو گئے۔ زبیر نے کانپتی آواز میں کہا، "یہ آواز کہاں سے آئی تھی؟" ندیم نے بھی پریشانی کے عالم میں کہا، "مجھے نہیں معلوم، لیکن ہمیں جلدی یہاں سے نکلنا ہوگا۔"
وہ تیزی سے واپس مڑنے لگے لیکن اچانک دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ وقاص نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں کھلا۔ ندیم نے گھبرا کر کہا، "ہم پھنس گئے ہیں!" زبیر نے کہا، "پریشان مت ہو، ہمیں کوئی اور راستہ تلاش کرنا ہوگا۔"
وہ تینوں مکان کے دوسرے حصے کی طرف بڑھنے لگے۔ چلتے چلتے انہیں ایک سیڑھی نظر آئی جو تہہ خانے کی طرف جا رہی تھی۔ زبیر نے کہا، "شاید نیچے سے کوئی راستہ مل جائے۔ چلو دیکھتے ہیں۔" وقاص نے ڈرتے ہوئے کہا، "کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ اچھا خیال ہے؟" زبیر نے کہا، "ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
وہ تینوں سیڑھیوں سے نیچے اترے۔ تہہ خانے کا منظر اور بھی خوفناک تھا۔ دیواروں پر خون جیسے نشانات تھے اور فرش پر جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ وقاص نے گھبرا کر کہا، "یہ جگہ تو واقعی خوفناک ہے۔" زبیر نے کہا، "چلو جلدی کرو، ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا۔"
چلتے چلتے انہیں تہہ خانے کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آیا۔ ندیم نے کہا، "شاید یہ دروازہ باہر نکلنے کا راستہ ہو۔" زبیر نے دروازہ کھولا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ دروازے کے پیچھے ایک خفیہ کمرہ تھا جس میں قدیم کتابیں اور عجیب و غریب اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔
ندیم نے ایک کتاب اٹھا کر دیکھی تو اس پر ایک پراسرار زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ زبیر نے کہا، "یہ کتاب شاید کسی جادوگر کی ہے۔" وقاص نے گھبرا کر کہا، "ہمیں ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ چلو جلدی یہاں سے نکلتے ہیں۔"
لیکن جیسے ہی وہ دروازے سے باہر نکلنے لگے، اچانک ایک زوردار آواز آئی اور پورا تہہ خانہ لرزنے لگا۔ زبیر نے چیخ کر کہا، "بھاگو!" تینوں دوست تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ اس بار دروازہ کھل گیا اور وہ تیزی سے باہر نکل گئے۔
باہر نکل کر انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ وقاص نے کہا، "میں نے کہا تھا کہ ہمیں اندر نہیں جانا چاہیے تھا۔" ندیم نے بھی خوفزدہ لہجے میں کہا، "یہ واقعی ایک خوفناک تجربہ تھا۔" زبیر نے کہا، "ہم خوش قسمت ہیں کہ زندہ واپس آ گئے۔"
اس رات کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ کبھی ایسی جگہوں پر جانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ لیکن ان کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال باقی رہا کہ وہ پراسرار مکان اور اس کا تہہ خانہ کس کے زیرِ اثر تھا اور وہاں کیا راز چھپے ہوئے تھے۔
Comments
Post a Comment