A secret jin baba ki horror stories and urdu kahaniyan par mabni Stories in urdu

horror stories,in urdu horror stories, horror stories in urdu, horror story,jin baba, bhoot ki kahani,bhooton ki kahaniyan, urdu kahani
beautiful stories in urdu,
horror stories in urdu



**عنوان: پراسرار جن  کی خوفناک کہانی**

گاؤں کے کنارے ایک گھنا جنگل تھا، جہاں دن کے وقت بھی سایوں کا راج رہتا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، اس جنگل میں ایک پراسرار جن بابا رہتا تھا جو کئی سالوں سے لوگوں کو خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ جو بھی رات کے وقت اُس جنگل کے قریب گیا، وہ کبھی واپس نہیں آیا۔

ایک دن علی اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھائیں گے۔ علی ایک بہادر نوجوان تھا جو ہر چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے تین دوست، وقاص، زبیر، اور سلمان بھی شامل تھے۔ وہ سبھی اپنی مہم جوئی کی خواہش کے باعث جانے کے لیے بے چین تھے۔

رات کے وقت جب پورے گاؤں میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، وہ چاروں دوست ٹارچ اور چند ضروری چیزیں لے کر جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی سرد ہوا کے جھونکے ان کے جسموں میں سنسنی پھیلانے لگے۔ ہر طرف اندھیرا تھا اور درختوں کی سرسراہٹ خوفناک محسوس ہو رہی تھی۔

چلتے چلتے انہیں ایک پرانا درخت نظر آیا جس کے نیچے مٹی کی ایک چھوٹی سی قبر جیسی چیز بنی ہوئی تھی۔ زبیر نے تجسس کے مارے وہاں جا کر دیکھنا چاہا لیکن علی نے اسے روک دیا۔ “یہ جگہ عجیب لگ رہی ہے، یہاں کچھ گڑبڑ ہے، ہمیں احتیاط سے آگے بڑھنا چاہیے۔” علی نے دھیمی آواز میں کہا۔

وہ آگے بڑھے تو اچانک انہیں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز اتنی خوفناک تھی کہ سب کے دل دہل گئے۔ وقاص نے گھبرا کر پوچھا، “یہ کس کی آواز ہے؟”

“پتہ نہیں، لیکن ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا چاہیے،” سلمان نے پریشانی سے کہا۔

ابھی وہ بات ہی کر رہے تھے کہ اچانک سامنے ایک سایہ نمودار ہوا۔ یہ ایک لمبے قد کا بوڑھا شخص تھا جس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں اور چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ “تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟” اُس شخص نے گونجتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

علی نے ہمت جمع کر کے جواب دیا، “ہم صرف جنگل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ کیا آپ جن بابا ہیں؟”

بوڑھے شخص نے قہقہہ لگایا اور کہا، “ہاں، مجھے لوگ جن بابا کے نام سے جانتے ہیں۔ جو بھی میری اجازت کے بغیر یہاں آتا ہے، وہ بچ کر نہیں جاتا۔”

یہ سن کر زبیر کے ہاتھ پیر کانپنے لگے۔ علی نے اپنے دوستوں کو تسلی دی اور کہا، “ہم یہاں کسی کو نقصان پہنچانے نہیں آئے، ہمیں صرف سچائی جاننی تھی۔ اگر ہم نے آپ کی جگہ میں مداخلت کی ہے تو ہمیں معاف کر دیں۔”

جن بابا نے غور سے علی کو دیکھا اور پھر کہا، “تم لوگ بہادر ہو، ورنہ کوئی عام انسان یہاں آنے کی ہمت نہیں کرتا۔ میں تمہیں ایک موقع دیتا ہوں کہ اگر تم اس جنگل کے دوسرے کنارے تک پہنچ گئے تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا، ورنہ تم سب ہمیشہ کے لیے یہیں رہ جاؤ گے۔”

علی اور اس کے دوستوں کے لیے یہ چیلنج قبول کرنا واحد راستہ تھا۔ انہوں نے دل میں دعا کرتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کیا۔ راستہ نہایت خطرناک اور پرپیچ تھا۔ ہر طرف اندھیرا اور پراسرار آوازیں ان کا پیچھا کر رہی تھیں۔

چند قدم چلنے کے بعد انہیں ایک بڑا درخت نظر آیا جس کے نیچے ایک عجیب و غریب شکل کی مورت رکھی ہوئی تھی۔ زبیر نے خوف سے کہا، “ہم یہاں سے واپس چلتے ہیں، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔”

علی نے مضبوط لہجے میں کہا، “نہیں، اگر ہم نے اب ہار مان لی تو ہم کبھی یہاں سے نہیں نکل پائیں گے۔ ہمیں حوصلہ رکھنا ہوگا۔”

وہ آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں انہیں ایک جھیل ملی جس کا پانی سیاہ تھا اور اس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ انہیں وہ جھیل پار کرنی تھی لیکن کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اچانک علی کو خیال آیا کہ وہ ایک درخت کی ٹہنی کا استعمال کر کے جھیل کو پار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے درخت کی ایک مضبوط ٹہنی کاٹی اور اس کے سہارے جھیل کو پار کیا۔

جب وہ جھیل کے دوسرے کنارے پر پہنچے تو جن بابا دوبارہ نمودار ہوا۔ اس بار اس کے چہرے پر حیرانی تھی۔ “تم لوگوں نے میرا چیلنج پورا کر لیا، لیکن ایک آخری شرط باقی ہے۔ اگر تم اس چراغ کو جلانے میں کامیاب ہو گئے تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔”

علی نے چراغ کو دیکھا تو اس پر عجیب سے نقوش بنے ہوئے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ عام چراغ نہیں ہے۔ اس نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا اور پھر اللہ کا نام لے کر چراغ جلانے کی کوشش کی۔ جیسے ہی علی نے چراغ جلایا، ایک تیز روشنی پھیلی اور جن بابا کی شکل بدلنے لگی۔ وہ ایک بوڑھے شخص سے ایک دھوئیں کے بادل میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔

“تم نے اپنی بہادری سے خود کو بچا لیا، اب یہ جنگل تمہارے لیے محفوظ ہے،” ایک پراسرار آواز گونجی اور پھر سب کچھ خاموش ہو گیا۔

علی اور اس کے دوستوں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور پھر تیزی سے جنگل سے باہر نکل آئے۔ گاؤں پہنچ کر انہوں نے یہ کہانی سب کو سنائی، لیکن کسی کو یقین نہیں آیا۔

تب سے وہ جنگل ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا اور جن بابا کی کہانی صرف ایک افسانہ بن کر رہ گئی۔ لیکن علی اور اس کے دوست جانتے تھے کہ انہوں نے حقیقت میں ایک خوفناک تجربہ کیا تھا جو ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر نقش رہے گا۔

Comments