**Next Episode: At the Bank of River**
ایک سرد اور تاریک رات کا منظر تھا۔ چاند کی ہلکی سی روشنی درختوں کے پتوں سے چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی۔ ایک تیز ہوا درختوں کے پتوں کو ہلا رہی تھی اور دور سے دریا کی لہروں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ علی اور اس کے دوست ایک سنسان جگہ پر پہنچے تھے جہاں پر جنگل کے درمیان سے دریا گزرتا تھا۔ یہ جگہ کافی عرصے سے مشہور تھی کیونکہ مقامی لوگ کہتے تھے کہ یہاں عجیب و غریب چیزیں دیکھی گئی ہیں۔
علی، احمد، وسیم، اور فہد نے مل کر ایک کیمپ لگایا تھا۔ یہ چاروں دوست اکثر ایسی ایڈونچر ٹرپس پر جاتے تھے لیکن یہ جگہ ان کے لیے خاص طور پر پر اسرار تھی۔ دن کے وقت یہ جگہ خوبصورت لگ رہی تھی لیکن جیسے ہی رات نے اپنی چادر اوڑھی، ماحول بدل گیا۔ دریا کی لہریں ایک عجیب سرگوشی کرتی محسوس ہو رہی تھیں۔
سب نے آگ جلائی اور کھانے پینے کی چیزیں نکالیں۔ وسیم نے ہنستے ہوئے کہا، “کیا خیال ہے، کوئی بھوت کی کہانی سنائی جائے؟” احمد نے فوراً ہاں میں جواب دیا اور کہانی شروع کرنے لگا۔ لیکن علی کا دھیان کہیں اور تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی چیز جنگل کے اندر چھپی ان سب کو دیکھ رہی ہے۔
“علی، کہاں کھو گیا؟” فہد نے پوچھا۔
“نہیں، بس یوں ہی، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہاں زیادہ دیر نہیں رکنا چاہیے،” علی نے کہا۔ دوستوں نے ہنستے ہوئے اس کا مذاق اڑایا اور بات کو نظر انداز کر دیا۔
رات کافی بیت چکی تھی اور سب اپنے اپنے خیموں میں جا چکے تھے۔ علی کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ ہر طرف عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اچانک اسے باہر سے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ شاید کوئی جانور ہوگا لیکن قدموں کی آواز مسلسل آتی رہی۔ علی نے خیمے سے باہر جھانکا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
دور دریا کے کنارے ایک پرانی کشتی دکھائی دے رہی تھی جو آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ تھی کہ کشتی کے قریب ایک دھندلی سی شبیہہ کھڑی تھی جو بالکل حرکت نہیں کر رہی تھی۔ علی نے گھبرا کر خیمے کے اندر واپس آ کر آنکھیں بند کر لیں۔
کچھ دیر بعد علی نے ہمت کی اور دوبارہ باہر جھانکا۔ شبیہہ اب بھی وہیں موجود تھی، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ علی کو دیکھ رہی ہو۔ علی نے دل مضبوط کیا اور اپنے دوست احمد کو جگانے کی کوشش کی۔
“احمد! اٹھو، کچھ عجیب ہو رہا ہے!”
“کیا ہوا؟” احمد نے نیند سے بوجھل آواز میں پوچھا۔
“دریا کے کنارے کوئی ہے، مجھے لگتا ہے ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔”
احمد نے ہنس کر کہا، “یار، تمہارے وہم ہیں۔ سو جاؤ، کچھ نہیں ہوگا۔” احمد دوبارہ سو گیا لیکن علی کے دل میں خوف بڑھتا جا رہا تھا۔
آخر کار علی نے ہمت کر کے خیمے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ سرد ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرا رہے تھے اور درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ ماحول کو مزید پراسرار بنا رہی تھی۔ علی آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا ہوا کشتی کے قریب جانے لگا۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتا، اسے محسوس ہوتا کہ کوئی نادیدہ طاقت اسے اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔
جب وہ کشتی کے قریب پہنچا تو اچانک اردگرد کی فضا بالکل خاموش ہوگئی۔ درختوں کی سرسراہٹ بند ہو گئی اور دریا کی لہریں بھی جیسے رک گئیں۔ علی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اچانک کشتی کے پیچھے سے ایک لمبی سفید چادر میں لپٹی عورت نمودار ہوئی۔
علی نے گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی لیکن اس کے قدم جیسے زمین سے چپک گئے۔ عورت کا چہرہ دھندلا تھا لیکن اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ علی نے ہمت کر کے کہا، “تم کون ہو؟ یہاں کیا کر رہی ہو؟” لیکن عورت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے صرف کشتی کی طرف اشارہ کیا۔
علی کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ کشتی میں بیٹھنے کے لیے مجبور ہو رہا ہو۔ اچانک پیچھے سے کسی نے علی کا کندھا پکڑ لیا۔ علی نے مڑ کر دیکھا تو احمد کھڑا تھا۔
“علی! تم کیا کر رہے ہو؟ خیمے میں واپس چلو، یہاں خطرہ ہے!” احمد کی آواز میں خوف تھا۔ علی نے دوبارہ کشتی کی طرف دیکھا لیکن وہاں اب کچھ بھی نہیں تھا، نہ عورت اور نہ کشتی۔ صرف پانی کی لہریں بہہ رہی تھیں۔
دونوں دوست بھاگتے ہوئے واپس خیمے میں آئے اور باقی دوستوں کو بھی جگا دیا۔ سب نے فوراً خیمہ سمیٹا اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔ علی کے دل میں ابھی بھی خوف موجود تھا۔
اگلے دن علی نے اس واقعے کے بارے میں تحقیق کرنے کا سوچا۔ اس نے مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ کئی سال پہلے ایک عورت دریا میں ڈوب گئی تھی اور لوگ کہتے تھے کہ اس کی روح آج بھی اس جگہ پر بھٹکتی ہے۔
یہ سن کر علی کے دل میں مزید خوف پیدا ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے جو دیکھا، وہ کوئی وہم نہیں تھا بلکہ حقیقت تھی۔ احمد اور باقی دوستوں نے دوبارہ کبھی اس جگہ جانے کی بات نہیں کی، لیکن علی کے دل میں یہ بات ہمیشہ رہی کہ اس رات کیا راز تھا۔
کہانی ختم نہیں ہوئی تھی، بلکہ ایک سوال بن کر علی کے ذہن میں زندہ رہی۔ شاید کبھی وہ دوبارہ ہمت کر کے اس جگہ جائے اور حقیقت جاننے کی کوشش کرے۔ لیکن اس رات کا خوف ہمیشہ کے لیے اس کے دل و دماغ پر نقش ہو گیا تھا۔
**(ختم شد)**
Comments
Post a Comment